فضل محمود روخانکالم

ایک مجذوب امیر رحمان کی کہانی

یادوں کے دریچے سے ہوا کے دوش پر امیر رحمان کی یاد میری سینے سے چمٹ گئی۔ امیر رحمان سے میرے برسوں کا تعلق تھا۔ کبھی کبھار میں سرِ راہ اُنہیں دیکھتا، تو علیک سلیک ہوجاتی۔ کبھی وہ مجھ سے ملنے آجاتا، اور دیر تک میرے ساتھ باتیں کرتا، اور کبھی فضل ربی راہیؔ کی دکان (شعیب سنز) میں اُن سے ملاقات ہوجاتی۔ وہ کبھی کبھی فضل ربی راہیؔ کو بھی حاضری دے جاتے، لیکن گذشتہ چند سالوں سے وہ مجھے نظر نہیں آئے تھے۔ ایک طرح سے وہ میرے ذہن سے محو ہوچکے تھے، لیکن جب یاد آئے، تو تشویش ہونے لگی کہ اللہ خیر کرے، یہ سالوں سے مسلسل غیرموجودگی کہیں مستقل غیر موجودگی میں نہ بدل گئی ہو۔ کیوں کہ زندگی کا کیا بھروسا!
مجھے امیر رحمان کا گھر معلوم نہیں تھا، لیکن اتنا پتا تھا کہ وہ مینگورہ امانکوٹ کے رہنے والے ہیں۔ ایک ویران سے مکان میں اکیلے رہتے ہیں۔ اور یہ کہ سخا چینہ کے محلے میں ان کا تعلق ہے۔ اُن کا ایک بھائی ہے، لیکن وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ امانکوٹ میں رہتا ہے۔ مَیں نے امانکوٹ کے چند ساتھیوں سے کہا کہ امیر رحمان کی خیریت دریافت کریں کہ وہ کس حال میں ہیں؟ اُنہوں نے چند دنوں کے بعد اطلاع دی کہ وہ کہیں بھی نظر نہیں آرہے۔ شاید وہ گزر گئے ہوں۔ اسی دوران میں ایک دن مجھے میرا قریبی دوست سرفراز خان انجینئر ملا۔ مَیں نے اُسے کہا کہ عرصہ ہوا امیر رحمان نظر نہیں آرہے کہ وہ کس حال میں ہیں؟ اس نے معلومات کیں اور مجھے بتایا کہ وہ عرصہ دو تین سال سے بیمار تھے، اور اپنے بھائی کے ہاں ہیں، لیکن اب صحت یاب ہوگئے ہیں۔ مَیں سرفراز خان کے ساتھ امیر رحمان سے ملاقات کی سوچ رہا تھا کہ اس دوران میں سرفراز خان صاحب ادائیگیِ حج کے لیے مکہ معظمہ چلا گیا۔ اور بات آئی گئی ہوگئی۔
ماہ ستمبر 2019ء کو جب سرفراز خان حج سے واپس آیا، تو اس نے مجھے اپنے آنے کی اطلاع دی، اور ساتھ یہ بھی کہا کہ امیر رحمان اور اُن کا بھائی مجھے حج کی مبارک باد دینے آئے ہیں۔ آپ بھی آجائیں۔ اس نے فون پر امیر رحمان سے میری بات بھی کروائی۔ مَیں نے جب اُن سے پوچھا کہ آپ اتنے عرصے کہا رہے؟ تو اُن کا جواب تھا: ”مَیں بیمار ہوگیا تھا۔ مَیں سرفراز خان کو حج کی مبارکباد دینے اور ”پخیر راغلے“ کے لیے اس کے گھر حاضر ہوا، لیکن بہت سے لوگ مبارک باد دینے کے لیے آئے ہوئے تھے۔“
پھر جب مَیں وہاں گیا، تو امیر رحمان اور اُن کا بھائی میرے آنے سے پہلے ہی چلے گئے تھے۔ یوں ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔
ایک دن بہت پہلے بازار میں امیر رحمان مجھے ملے۔ چھوٹتے ہی کہنے لگے کہ ”میرے لیے ایمان خریدو۔“ مَیں حیران رہ گیا کہ ایمان کہاں بکتا ہے؟ میں اُن کے ہمراہ چلنے لگا۔ وہ مجھے ایک ریڑھی بان کے پاس لے گیا۔ ایک خوبصورت نسوار کی ڈبیا پر ہاتھ رکھ کر کہا، ”یہ ہے۔“ مَیں نے ڈبیا خرید کر انہیں دی۔ وہ خوش ہوکر چلے گئے۔
شورش زدہ سوات میں جب ہماری زندگی اجیرن ہوگئی تھی اور جب امن بحال کرنے والوں نے پُرامن شہریوں کو سوات سے چلے جانے کا کہا، تو ہم نے بھی چند ہفتے بعد حسرت بھری نگاہ سے سوات کو الوداع کہا، لیکن امیر رحمان سوات میں رہ گئے۔ ایک دن وہ مسجد سے باہر آرہے تھے کہ ایک فوجی نے اُنہیں نشانے پر لیا، لیکن پہاڑی کے دامن میں ایک چرواہے نے یہ منظر دیکھ لیا۔ اس نے اونچی آواز میں کہا کہ ”جناب، ان کو مت مارو، یہ تو پاگل ہیں۔“ کچھ دیر بعد فوجیوں سے اُن کا آمنا سامنا ہوا، تو امیر رحمان نے اُنہیں فوجی انداز سے سلامی دی اور ماتھے پر ہاتھ رکھ کے ترانہ گانے لگا۔ امیر رحمان کو تو معلوم ہی نہ تھا کہ ان فوجیوں میں سے ایک نے اُسے مارنے کے لیے تھوڑی دیر پہلے گن سے نشانہ تک لیا تھا۔
امیر رحمان کو اللہ تعالیٰ نے سریلی آواز سے نوازا تھا۔ جب وہ اچھے موڈ میں ہوتے تھے،تو ”سائیکل وفادارا“ اور ”بطخ“ گانے لگتا۔ وہ تھا تو ایک مجذوب، لیکن عام لوگوں کے لیے وہ ایک پاگل تھا۔وہ کبھی کبھی میرے ساتھ کھانے میں بھی شریک ہوجاتا تھا۔ کھانے سے پہلے وہ خوب ہاتھ دھوتا تھا۔ کلمہ پڑھ کر کھانے کا آغاز کرتا۔ ایک دفعہ میرے ساتھ ایک مریض کی بیمار پرسی کے لیے گیا تھا۔ عام لوگوں کی طرح مریض کے لیے انہوں نے دعا بھی مانگی۔ ایک دن وہ میرے ہمراہ نماز پڑھنے مسجد بھی گیا تھا۔ مَیں نے نماز پڑھ لی، لیکن اُن کی نماز ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔ اُن کے وضو کرنے کا انداز بھی عجیب تھا۔ نماز پڑھنے میں اللہ میاں کے سامنے اُن کی عاجزی دیکھنے لائق تھی۔ وہ پچاسی سال کی عمر میں بھی بالک ایک بچہ لگتے تھے۔ کاغذ، کاپی، قلم، دوات، پنسل اور تختی سے اُنہیں پیار تھا۔ وہ اکثر فضل ربی راہیؔ کی دکان میں بھی آتے تھے۔ جہاں ان کو مذکورہ چیزیں بڑی آسانی سے ملتی تھیں۔ وہ لوگوں کی نظر میں ایک پاگل تھے لیکن نہایت مؤدب اور شریف النفس انسان تھے۔ سالوں کی رفاقت میں اُن کی زبان سے نازیبا بات نہیں سنی۔ وہ جب بھی میرے پاس ہوتے،تو مجھے یہ گماں بھی نہ گزرتا تھا کہ گویا وہ کوئی پاگل یا مجذوب ہیں۔
ایک دن میں نے فوٹوگرافر کی مدد سے اُن کے ہمراہ تصویر بنوائی، تو کہنے لگے کہ اب فوٹو سے گزارا چلاؤ، وہ غیر ارادی طور پر کبھی کبھی ایسی بات بھی کرجاتے کہ اللہ تعالیٰ مستقبل میں اُنہیں سچ ثابت کرتے۔ وہ بنیادی طور پر ایک زرگر تھے۔ کبھی وہ بڑی مہارت سے زیورات بھی بنوایا کرتے تھے۔ کراچی میں مل مزدوری بھی رہ چکے تھے۔ شادی کی تھی، لیکن بعد بیوی نے علاحدگی اختیار کرلی۔ ایک مکان سخا چینہ امانکوٹ میں تھا، جو جگہ جگہ ٹوٹ گیا تھا۔ ایک ویران مکان میں ایک چارپائی برابر جگہ سلامت تھی، جہاں رہتے تھے۔ وہ سویرے مینگورہ کا رُخ کرتے۔ سارا دن مینگورہ میں گزارتے۔رات گئے گھر واپس چلے جاتے۔ جب بیمار ہوئے، تو بھائی اُنہیں اپنے گھر لے گئے۔علاج کروایا، دوا دی، صحت یاب بھی ہوئے۔شوگر اور بلڈ پریشر کے علاوہ دیگر بیماریاں بھی انہیں لاحق تھیں، لیکن بھائی نے اُنہیں ساتھ رکھا۔ بالآخر امیر رحمان اپنے بھائی کے گھر امانکوٹ میں 29 نومبر 2019ء کو بروزِ جمعہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ 30 نومبر 2019ء کو ہفتے کے روز صبح 11 بجے اُن کی تدفین ہوئی۔ میرا دوست سرفراز خان اُن کے جنازے میں شامل تھا، لیکن مجھے اور فضل ربی راہی کو اُس وقت پتا چلا جب سرفراز خان صاحب نے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے اطلاع دی۔ اس نے کہا کہ ”جنازے پر آپ کا آنا مشکل تھا۔ کیوں کہ مَیں نے بڑی مشکل سے جنازے میں حصہ لیا۔ البتہ فاتحہ خوانی کے لیے آپ لوگ آجائیں۔“
ہم نے اُن کے بھائی اور رشتہ داروں سے غم رازی کی، فاتحہ پڑھی اور اُن کی قبر پر حاضری دی۔ اب ہمارا برسوں کا دوست منوں مٹی تلے ابدی نیند سورہا ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں