فضل محمود روخانکالم

روم جل رہا تھا اور نہرو بانسری بجا رہا تھا

پاک بھارت کی 1965ء والی جنگ مجھے یاد ہے۔ عام طور پر جنگ زدہ ممالک، جنگ کے بعد مختلف مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں جن سے عوام بھی متاثر ہوتے ہیں۔ یہ مسائل مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مثلاً ملک کی صنعت، تجارت، زراعت اور معیشت بری طرح متاثر ہوتی ہے، لیکن 1965ء کی لڑائی کے بعد سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ ضروریاتِ زندگی وافر مقدار میں پرانے نرخوں میں عوام کے لیے دستیاب تھیں۔
مَیں نے 1971ء کی پاک بھارت جنگ بھی دیکھی ہے۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں بدلتے ہوئے دیکھا ہے۔ ملک دولخت ہوتے دیکھا ہے۔ ہمارے 90 ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے، لیکن اس کے باوجود بھی عوام کے معیارِ زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ چوں کہ ملک ٹوٹ گیا تھا۔ پاکستانی کرنسی پر بنگلہ زبان میں بھی کچھ الفاظ درج تھے۔ اس لیے پاکستان کو اپنی تمام کرنسی تبدیل کرنا پڑی۔ پرانی کرنسی منسوخ بھی ہوئی، لیکن اس کے باوجود پاکستانی عوام کسی پریشانی یا مہنگائی کی لپیٹ میں نہیں آئے۔ بھٹو کو فوج سے اقتدار ملا۔ وہ خود سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا، لیکن ملک میں پھر بھی کوئی قیامت برپا نہیں ہوئی۔ بھٹو بعد میں صدر بھی بنا اور 1973ء کے آئین کی رو سے وزیراعظم بھی بنا۔ بھارت سے اپنے قیدیوں کو آزاد کروایا۔ 1974ء میں اسلامی ممالک کی کانفرنس، پاکستان میں منعقد کروائی۔ لیکن ملک کے عوام کا حوصلہ بلند رہا۔ اگر چہ ملک ٹوٹنے سے حکومت کرنا آسان نہیں رہا تھا اور بھٹو نے اپنے دورِ حکومت میں ایمرجنسی سے حکومت چلایا، لیکن ملک میں مہنگائی کو بڑھنے نہیں دیا۔ ملک کی معاشی حالات تسلی بخش تھے۔ بعد میں ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ 13سال ملکی حالات بہتر رہے۔ عوام کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوئی۔ بعد میں نواز شریف کی حکومت آئی۔ یہ بھی کچھ حد تک بہتر تھی۔ اگر چہ صوبہ خیبر پختونخوا میں غریب عوام کو آٹے کے بجائے چوکر کھانے کو ملا۔ پھر جب جنرل پرویز مشرف کو فوجی اقتدار ملا، تو اُس وقت کا صوبائی وزیراعلیٰ مہتاب عباسی جو سوات کے دورے پر تھا۔ اسے سوات سے گرفتار کرکے نواز شریف کی طرح جیل میں ڈالا گیا۔ لوگ خوش تھے کہ عوام کی بد دعائیں اُس کو لگ گئیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ملک کے معاشی حالات بہتر رہے۔ لوگوں کو روزگار کے نئے نئے مواقع دستیاب ہوئے۔ یہ نام کی فوجی حکومت تھی، لیکن افغانستان پر امریکن حملے سے پہلے پاکستانی عوام خوش تھے۔ اس افغان، امریکن جنگ نے اگر ایک طرف افغانستان کی خود مختاری پر کاری ضرب لگائی، تو دوسری جانب پاکستان میں دہشت گردی نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ افغان، امریکن جنگ میں اتنا نقصان افغانستان کو نہیں ملا، جتنا پاکستان کو ملا۔
اس کے بعد زرداری کو اقتدار ملا۔ دہشت گردی بہ دستور جاری رہی۔ عوام کے جان و مال کو دہشت گردوں سے ہر وقت خطرہ ہی رہا۔ لیکن پھر بھی عوام کو اس عذاب کے علاوہ اور عذاب نہیں ملا۔ اگرچہ دہشت گردوں نے صرف پختونوں کو ہدف بنایا تھا۔ پنجاب اس سے تقریباً بچا رہا، بلکہ خیبرپختونخوا میں ہزارہ ڈویژن بھی تقریباً محفوظ رہا۔ چوں کہ صوبے میں اے این پی کی حکومت تھی۔ اس لیے پختونوں کو ٹارگٹ کیا جاتا رہا۔ دوسرے نمبر پر بلوچستان دہشت گردی سے متاثر ہوا۔ تیسرے نمبر صوبہ سندھ بھی کسی حد تک متاثر رہا، لیکن پھر بھی ملک میں مہنگائی کا ہدف نیچے ہی رہا۔
اس کے بعد نواز شریف نے تیسری بار اقتدار سنبھالا اور ملک میں بد امنی اور دہشت گردی پر قابو پایا۔ ملک ترقی کی جانب چلنے لگا۔ ابھی نواز حکومت نے ایک آدھ قدم ہی آگے بڑھایا تھا کہ اس کو نااہل قرار دیا گیا، جیسے تیسے ن لیگ نے مقررہ میعاد تک حکومت چلائی۔ اس کے بعد ملک میں عام انتخابات ہوئے اور اقتدار عمران خان کی پارٹی کو ملا۔
اس کی حکومت بنتے ہی ایک دم دوائیوں میں 400فی صد قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ ڈالر کو کھلا چھوڑ دیا گیا اور پاکستانی کرنسی کی ویلیو صفر ہوگئی۔ پاکستان کے معاشی حالات دن بہ دن ابتر ہوگئے۔ سونے کی قیمتوں کو پر لگ گئے۔ کاروبار تباہ و برباد ہوا۔ ملکی صنعتی پہیہ رک گیا۔ سوئی گیس کی قیمتوں میں 300فی صد اضافہ کیا گیا۔ بجلی بلوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا۔ مکانوں اور دکانوں کے کرائے بڑھتے گئے۔ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 400 فی صد اضافہ ہوا۔ ذرائع آمدن ختم ہوئے۔ بعد میں کرونا کی وبا سامنے آئی۔ اس سے رہی سہی کسر بھی دور ہوگئی۔
اب خیبر پختونخوا میں 20 کلو آٹا 1400 روپیہ میں دستیاب ہے، چینی نایاب ہے، لوگ بجلی کے بلوں سے نالاں ہیں۔ سوئی گیس والے بھی عوام پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ جان و مال، عزت و آبرو کچھ محفوظ نہیں رہا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو ریپ کیا جارہا ہے، اور بعد میں انہیں بے دردی سے ہلاک کیا جاتا ہے۔ سرعام خواتین کی بے عزتی اور ریپ ہو رہے ہیں۔ تعلیم کاتو بیڑا غرق کردیا گیا ہے۔ لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا۔ معاشی بدحالی زوروں پر ہے۔ کاروباری لوگ خفا ہیں۔ ملازم پیشہ لوگ رو رہے ہیں۔ عمران خان کی مرکزی حکومت، محمود خان کی صوبائی خیبر پختونخوا حکومت اور بزدار کی پنجاب صوبائی حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے۔ اللہ خیر کرے آگے کیا ہوگا؟
اگر ایک وزیراعظم بھٹو اپنے دورِ اقتدار میں تمام عرصہ ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے حکومت چلا سکتے ہیں، تو پھر عمران حکومت کو عوام کے مسائل حل کرنے، امن قائم رکھنے، گرانی کو کنٹرول کرنے اور ملک کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کو سنوارنے کے لیے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کرنی چاہیے۔ عملاً اس ملک میں حکومتی رٹ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ فارن کرنسی (ڈالر) کو پاگل کتے کی طرح کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس ڈالر نے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور پہنچا رہا ہے۔ اس ملک میں غریب عوام کی کرنسی پاکستانی روپیہ ہے اور اس ملک کے اشرافیہ کی کرنسی امریکی ڈالر ہے۔ پاکستانی عوام جس کرب اور اذیت سے دوچار ہیں۔ وہ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے اور اگر آج بھی مہنگائی پر قابو نہ پایا گیا، تو ملک میں انتشار اور انارکی پھیلنے کا شدید خطرہ ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں