فضل محمود روخانکالم

کشرہ بیگم والیِ سوات کی کہانی

والیِ سوات کے دفتر میں ایک 11 سال کی لڑکی اپنے والدین کے خلاف شکایت لے کر آئی اور کہنے لگی کہ میرے والدین میرا رشتہ طے کرنے کے درپے ہیں، لیکن مَیں اپنے چھوٹے بھائی کی خاطر شادی نہیں کرنا چاہتی۔
والیِ سوات نے لڑکی کے حق میں فیصلہ سنادیا کہ تم اپنی مرضی کی مالک ہو۔ شادی نہیں کرنا چاہتی، تو نہ کرو۔ لڑکی نے خوشی سے دوڑ لگا دی۔ فیصلہ خط کا انتظار بھی نہیں کیا۔ گھر میں والدین سے کہا کہ مَیں نے والیِ سوات کو بتا دیا ہے کہ مَیں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ اس لیے آپ میری شادی نہیں کرسکتے۔
مینگورہ شہر میں گرین چوک سے لے کر سہراب خان چوک تک گھروں کو مسمار کیا جا رہا تھا۔ واضح رہے کہ اُس وقت گرین اور سہراب خان چوک کا کوئی وجود تک نہ تھا۔ مسمار شدہ گھروں کی جگہ ایک سیدھی سڑک بن رہی تھی۔ جو بعد میں نیو روڈ مینگورہ کے نام سے عوام میں مقبول ہوئی۔
1958ء (جمعہ کا دن 12 جنوری) میں مین بازار مینگورہ کی ہر گلی کی نکڑ پر پولیس ڈیوٹی دے رہی تھی۔ کسی کو بازار میں قدم رکھنے کی اجازت نہ تھی۔ شام کے دُھند لکے میں چند گاڑیاں سیدو شریف کی جانب مین بازار سے گزر رہی تھیں۔ نیو روڈ مینگورہ کے ایک گھر سے دلہن کے لباس میں ایک دوشیزہ برآمد ہوتی ہے اور ایک کار میں بیٹھ جاتی ہے۔ برات روانہ ہوتی ہے اور کچھ دیر بعد والیِ سوات کے محل میں داخل ہوتی ہے۔ برات، والیِ سوات کو شادی پر مبارک باد دیتی ہے۔ یہ دراصل والیِ سوات کی دوسری شادی ہے۔ دلہن بختِ زیبا کا یہ دوسرا جنم ہے، جو والیِ سوات کے محل میں ہوتا ہے۔
بختِ زیبا کے دادا سید ولی شاہ، والد شاہ حیدر بر سوات سے سرسینئی گاؤں علاقہ نیک پی خیل منتقل ہوگئے تھے۔ پھر کچھ عرصہ بعد تحصیلِ بابوزیٔ کے گاؤں اوڈیگرام میں رہائش اختیار کی۔ سرسینئی گاؤں میں اب بھی ان کے کچھ رشتہ دار آباد ہیں۔ رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے انہوں نے سرسینئی گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔
بختِ زیبا کی والدہ صاحبہ کا نام نازنین تھا، جو باجوڑے خان کی بیٹی تھی۔ باجوڑے خان ایک سفر کے دوران میں مرگیا تھا۔ نازنین اپنی جائیداد حاصل کرنے کے لیے باچا صاحب کے دربار میں عرضی لے کر حاضر ہوئی تھی، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی تھی کہ اُن دنوں بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دینے کا رواج نہیں تھا۔
بختِ زیبا صرف دو جماعتیں ہی پڑھی تھی۔ وہ اوڈیگرام میں پیدا ہوئی تھی۔ والیِ سوت نے اس کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی اور گھر میں مس رحمان جو لاہور سے آئی تھی، تعلیم دینے پر مامور تھی۔ بعد ازاں اکسفورڈ میں 2 ماہ کے لیے داخل ہوئی تھی۔ تاکہ انگریزی میں مہارت حاصل ہو۔
1961ء میں ملکہ الزبتھ تین دن کے دورے پر سوات آئی اور والیِ سوات کی ذاتی مہمان بنی۔
اس نجی دورے میں ملکہ کے شوہر ’’ڈیوک آف ایڈنبرا‘‘ جو شکار کھیلنے میں ماہر تھا، ایک سال پہلے بھی سوات آیاتھا، وہ بھی ہمراہ تھا۔
ملکہ الزبتھ نے CIEکے ایوارڈ سے زیبا کو نوازا تھا۔ بختِ زیبا نے والیِ سوات کے ہمراہ مختلف ادوار میں مختلف ملکوں کے دورے بھی کیے تھے۔ ان دوروں میں امریکہ اور بھارت شامل نہیں تھا کہ زیبا کو امریکہ پسند نہیں تھا اور والیِ سوات کو بھارت جانے میں دلچسپی نہیں تھی۔
جب زیبا کی شادی والیِ سوات سے ہوئی، تو باچا صاحب نے منھ دکھائی پر ایک قطعۂ زمین اُنہیں عطا کیا تھا، جس پر بعد ازاں اللہ اکبر مسجد تعمیر ہوگئی۔
شاہی محل میں زیبا کو بی بی کے نام سے مخاطب کیا جاتا تھا۔ زیبا کی شادی سے پہلے والیِ سوات اپنے دفتر میں خواتین کی گذارشات سنتے تھے۔ زیبا نے خواتین کی سہولت کے لیے اپنے محل میں خواتین کے مسائل حل کرنا شروع کردیے۔ جب باچا صاحب کو پتا چلا، تو انہوں نے زیبا کو بیگم کا خطاب دیا اور اُس دن سے وہ بیگم کہلانے لگی۔
والیِ سوات کی پہلی بیوی جب وفات ہوئیں، تو بخت زیبا بیگم نے اُن کی میت کو غسل دیا اور کفن پہنایا۔ اعلا اخلاق اور بہتر سلوک کی وجہ سے محل میں ہر کوئی زیبا کا خیال رکھتا تھا۔ صرف ولی عہد میاں گل اورنگ زیب نے 9 سال بعد لندن کے ایک اعلا ہوٹل “Piccadilly” میں زیبا کو پہلی دفعہ دیکھا تھا اور زیبا کا تعارف نسیم اورنگ زیب نے اپنے شوہر سے خود کیا تھا کہ یہ والیِ سوات کی دوسری بیوی ہے۔
ولی عہد اورنگ زیب کے منھ سے بے اختیار یہ جملہ نکل گیا تھا کہ میرا تو خیال تھا کہ میرے والد نے اپنی ہم عمر خاتون سے شادی کی ہوگی۔ نسیم یہ تو تم سے بھی عمر میں چھوٹی ہے۔ اُس ملاقات کے بعد ولی عہد کا رویہ بھی نرم ہوگیا تھا اور زیبا کا خصوصی خیال رکھنے لگا تھا۔
زیبا نے 29 سال پر مشتمل والیِ سوات کے ساتھ ازدواجی زندگی گزاری۔ ہنسی خوشی کی یہ زندگی 14 ستمبر 1987ء کو والیِ سوات کی وفات پر اختتام پذیر ہوئی۔
والیِ سوات کی وفات پر اُن پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ والیِ سوات کی موت پر انہوں نے 3دن تک کھانا نہیں کھایا۔ زیادہ رونے سے ان کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔
کامران خان جو والیِ سوات کا ذاتی دوست تھا۔ اُن کے گھر سے زیبا کے لیے خصوصی کھانا آتا تھا۔ کامران خان اور اُن کے خاندان نے اس دکھ اور غم میں زیبا کو اخلاقی سہارا دیا۔
والیِ سوات کے چہلم پر زیبا نے اپنے گلے کا ہار فروخت کرکے والیِ سوات کے بلند درجات کی خاطر خیرات کیا اور ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلایا۔
بختِ زیبا پیدائشی طور پر پشتو زبان کی شاعرہ ہے۔ اُن کی تین کتابیں ’’نیمگڑے جوند‘‘، ’’یادونہ‘‘ اور ’’د وخت سپیڑہ‘‘ اب تک منظر عام پر آچکی ہیں۔ اُن کی شاعری پر ملاکنڈ یونیورسٹی کے شعبۂ پشتو کی طالبہ سنبل سحر نے ایم فل کی ڈگری لی ہے۔ اُن کی شاعری جو مَیں نے پڑھی ہے، وہ والیِ سوات کی یاد میں لکھی گئی ہے۔ آہ و بکا سے معمور ہے۔
بخت زیبا کے بطن سے والیِ سوات کی کوئی اولاد نہیں۔ اس لیے بچوں کی کمی دور کرنے میں انہوں نے اپنے بھائی امیر سیاب خان کے بیٹے شاہ زیب کو بیٹے کے طور پر پالا تھا۔ جب وہ بڑا ہوا، اس کی شادی ہوگئی۔ بعد میں اس کی جگہ اس کے بیٹے بشارت زیب کو بیٹا بنا دیا۔ بشارت زیب اس وقت 20 کا ایک سجیلا جوان ہے، اس کے ساتھ اُن کی محبت دیدنی ہے۔ اس طرح بشارت زیب بھی اُن کو اپنی ماں کی طرح چاہتا ہے اور ماں کے پیارے نام سے اُنہیں مخاطب کرتا ہے۔
بخت زیبا (کشرہ بیگم) خاموشی سے معاشرے کی بھلائی کے لیے کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہے۔ اڑوس پڑوس اور غریبوں کے کام آتی ہے۔ ہیومن رائٹس میں اُن کا نام زیادہ نمایاں ہے۔ انہوں نے زندگی کے نشیب و فراز بہت دیکھے ہیں۔ اُن کی زندگی نیرنگِ زمانہ کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔ زندگی کی دریچے سے وہ دیکھتی رہتی ہے۔
اللہ سلامت رکھے، بختِ زیبا بڑی نیک اور پارسا عورت ہے۔

متعلقہ خبریں

تبصرہ کریں